منگل 28 اکتوبر 2025 - 12:53
حجۃ الاسلام مولانا ڈاکٹر سید محمد اصغر فیضی اب اس دنیا میں نہیں رہے

حوزہ/ انتہائی رنج و غم کے ساتھ یہ خبر وحشت اثر موصول ہوئی کہ حجۃ الاسلام مولانا ڈاکٹرسید محمد اصغر فیضی پروفیسر شعبہ دینیات شیعہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ آج صبح ۱۰؍بجے دن کوعلی گڑھ میڈیکل کالج میں دوران علان حرکت قلب بند ہونے سے رحلت فرما گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انتہائی رنج و غم کے ساتھ یہ خبر وحشت اثر موصول ہوئی کہ حجۃ الاسلام مولانا ڈاکٹرسید محمد اصغر فیضی پروفیسر شعبہ دینیات شیعہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ آج صبح ۱۰؍بجے دن کوعلی گڑھ میڈیکل کالج میں دوران علان حرکت قلب بند ہونے سے رحلت فرما گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مولانا مرحوم عرصے سے شوگر کے مریض تھے مگر ایک ہفتہ قبل طبیعت زیادہ خراب ہونے پر میڈیکل کالج علی گڑھ میں داخل کئے گئے اور وہیں دوران علاج ہارٹ اٹیک ہونے کی وجہ سے جاں بر نہ ہو سکے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔ مرحوم کے اعزاء مرحوم کی میت کو لے کر علی گڑھ سے ان کے آبائی وطن موضع درون ضلع امبیڈکر نگر کے لئے روانہ ہو گئے ہیں تدفین ان شاءکل براوز منگل ان کے آبائی قبرستان درون امبیڈکر نگر میں میں ادا کی جائے گی۔

زندگی نامہ:

  • حجۃ الاسلام جناب مولانا سید محمد اصغر فیضی واعظ
  • پورا نام : سید محمد اصغر
  • تاریخ پیدائش : ۱۰؍ جنوری ۱۹۶۵ء؁
  • جائے پیدائش: موضع درون پوسٹ آفس خیمہ پور فیض آباد
  • شہریت : فیض آباد ( انڈیا )
  • والد کا نام مع ولدیت: سید تفضل حسین مرحوم بن سید حافظ علی
  • والدہ کا نام مع ولدیت سیدہ شیریں بی بی بنت سید الطاف حسین
  • زوجہ کا نام مع ولدیت : سیدہ علی بانو بنت سید مجتبیٰ حسین
  • مستقل پتہ : دھورا علی گڑھ
  • ابتدائی تعلیم اور تعلیم گاہیں : وثیقہ عربی کالج فیض آباد
  • اسناد تعلیم : مولوی منشی ، کامل ، فاضل ادب ، سندالافاضل، صدر الافاضل ، واعظ، اجتہاد بایران ، ایم فل ، پی ایچ ڈی ۔
  • تعلیمی و تبلغی خدمات : واعظین کا دورہ، وثیقہ عربی کالج بحیثیت معلم، ایسوسیٹ پروفیسر ( ریڈر)
  • چند مشاہیر اساتذہ کے نام : علامہ سید وصی محمد صاحب قدس سرہ، علامہ مجتبیٰ علی خاں،مولانا سید تقی الحیدری، علامہ محمد احمد خان ، علامہ ابرار حسین جونپوری، علامہ سید محمد جعفر الرضوی۔
  • چند ہمدرس احباب رفقاء کے نام : سید محمد صادق پرنسپل سلطان المدالرس لکھنؤ، سید اختر حسن الہ آبادی ( رفیق ) شیخ رئیس حسین، (رفیق) سید محمد حسنین کراروی ( ہمدرس)
  • مشغلہ، تاریخ و ملازمت : اے ایم یو علی گڑھ میں ملازمت۱۱؍ فروری ۱۹۹۵ سے اب تک۔
  • اولاد پسران و دختران مع نام :
  • موبائل نمبر: 8433296548۔9411604165
  • دیگر ضروری معلومات : سماجی کارکردگی مثلاً! مجلس میںشمولیت نکاح خوانی و دیگر امور میںشمولیت۔ 

    حجۃ الاسلام مولانا ڈاکٹر سید محمد اصغر فیضی اب اس دنیا میں نہیں رہے

عالیجناب مولانا ڈاکٹر سید محمد اصغر فیضی صاحب قبلہ واعظ، سربراہ شعبۂ دینیاتِ شیعہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی علیگڈھ، درون ضلع فیض آباد وطن ہے۔ وثیقہ عربی کالج فیض آباد میں تعلیم حاصل کی ۔مدرستہ الواعظین لکھنؤ میں بھی طالب علم رہے۔ جامعہ سلطانیہ لکھنؤ سے صد الافاضل اور مدرستہ الواعظین لکھنؤ سے واعظ کی سند حاصل کی پھر ایک عرصہ تک حوزئہ علمیہ(قم) میں زیر تعلیم رہ کر اب شعبۂ شیعہ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں لکچرر رہیں۔اچھے خطیب ہیں صاحب قلم اور صاحب تصنیف ہیں تبلیغی امور میں جوش و جذبہ رکھتے ہیں۔اپریل تا دسمبر ۱۹۸۶ء؁ معاون مدیر اصلاح رہے۔‘‘ ( ماہنامہ اصلاح لکھنؤ،اصلاح صدی نمبر ،جنوری تا مارچ ۱۹۹۹ء؁)

جناب مولانا ڈاکٹر سید محمد اصغر فیضی صاحب قبلہ واعظ قمی علیگ (سربراہ شعبہ ٔ دینیاتِ شیعہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی علیگڈھ)اپنی زندگی کی کچھ تلخ سچائیاں خود یوں رقم فرماتے ہیں:

زندگی کی تلخ سچائیاں

وثیقہ عربی کالج:

فیض آباد :۔ میری زندگی میں شہر فیض آباد کو کافی اہمیت حاصل رہی یہیں سے میری زندگی کے علمی سفر کا آغاز ہواوالد مرحوم السید تفضل حسین صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد استاذی العلام فخرالاتقیاحجۃ االاسلام و المسلمین علامہ سید وصی محمد صاحب قبلہ وکعبہ قدس سرہ مجلس چہلم کو خطاب کرنے وطن گئے تھے شام میں کچھ اتنی تیز بارش ہوئی کے علامہ کو رخصت نہیں کیا جاسکا کیونکہ ٹیکسی ڈرائیور نے گھر تک آنے سے انکار کردیا تھا۔

شام کے وقت بزرگوں نے جناب علامہ سے گذارش کی کہ سرکار اگر مغرب بہ جماعت ہوجائے تو ہمیں اس وقت کی نماز جماعت کا ثواب اور بھی حاصل ہوجائے گا علامہ نے اظہار رضا مندی فرمایا مومنین کافی خوش ہوے اور سب مسجد کی جانب روانہ ہوگئے نماز مغرب پڑھ کر جب لوگ آئے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا ہم چھوٹے بچے بھی نماز میں شامل ہوئے مگر ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ خوشی فضائل جماعت پر منائی جارہی ہے ۔(موضع درون پول سٹ خیمہ پور ضلع فیض آباد /امبیڈکر نگر) یہ میرے وطن کے لئے خط و کتابت کا پتہ ہے۔

میں جس جگہ کا رہنے والا ہوں وہاں بہت ہی مختصر مومنین کرام رہتے ہیں یہاں کی پوری آبادی ۹ گھر وں پر مشتمل ہے چار گھر ہمارے اپنے خاندان کے جس حصہ کو ایک گھلی کے ذریعہ اجداد نے الگ کرلیا تھا وہاں ہمیں یہ چار گھر سادات کے صاحب شجرہ ہیں بقیہ باہر ی خانوادہ سےہیں۔ جس میں جناب یتم حسین خان صاحب ابن بصارت علی صاحب خاص طور سے قابل ذکر ہیں جن کے فرزند جناب آل حسن و ہادی حسن ابن جناب یتم حسین صاحب یہ لوگ تحصیل ٹانڈہ کے موضع بھگا ہیں سے ہجرت کرکے یہاں تشریف لاے اور یہان کے مستقل باشندہ ہوگئے۔

اب ان کی اور اولاد میں بعض یہاں رہتے ہیںاور عارضی طور پر انکا آنا جانا بھی ہے جبکہ بعض شہر وں میں بس چکے ہیں۔

ہمارے موضع میں ہر خانوادہ کو جوزمین بسنے کیلئے دی گئی اسمیں ہرایک گھر کو ایک گلی کے ساتھ جدا کردیا گیا چنانچہ جتنے گھر ملیں گے آج بھی اس میں یہ رعایت باقی رکھی گئی ہے۔

ہمارے خاندان میں بڑے ابّا جناب سیدسعادت حسین مرحوم کے ایک تھیں ان کی شادی بڑے ابا کے سالے کے لڑکے سے بعد میں بڑی امی نے اپنے بھتیجے جمال حسین ابن احمد علی(موضع پڑورن ضلع سلطانپور) کے ساتھ کردی گویا میرا اپنا خاندان جو چار گھر پر مستمل تھا وہ اب فقط تین ہی گھر پر مشتمل ہے غرض موضع میں ہر گھر اور خاندان کو ایک گلی کے ذریعہ بانٹ دیا گیا ہے۔ کہ یہ ایک ہی جد کی اولاد ہیں۔

بات کہاں سے کہاں پہنچی بعد نماز مغرب علامہ نے بعض بزرگوں کے ہمراہ کھانا نوش فرمایا اس کے بعد بعض چھوٹے بڑے ہاتھ پیر تبرکا برائے ثواب دیا نے لگے ہم لوگ بھی علامہ کا سر دبانے لگے اسی دوران آپ نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاسلمہ آپ میرے ساتھ شہر چلئے گا؟ میں نے شہر جانے کی لالچ و خواہش میں ہاں کرلیا۔

اس کے بعد علامہ ؒ نے عم محترم عالیجناب سید علی انصر صاحب مرحوم سے کہا کیا آپ اس بچے کو مجھے دے سکتے ہین چچا جاں نے کہا مرحوم کی بیوہ (یعنی والدہ) خودہی اس کے بارے میں فیصلہ لے سکتی ہیں چنانچہ والدہ کو پس در بلایا گیاآپ نے والدہ سے میرے سلسلہ میںبات کی والدہ نے فرمایا گوکہ یہ فیصلہ اس وقت میرے واسطہ بہت کٹھن ہے لیکن آپ کی حکم کے سامنے میں حرف زنی نہیں کرسکتی اور اب سارا فیصلہ اس بچے پر ہی چھوڑے دیتی ہوں کہ اگر سلمہ آپ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو جائیں اور اگر ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو یہاں رہیں اب میں ہاں کر چکا تھا لہذا اس ایک ہاں کے انجام سے آخر حیات تک لڑنے کو تیار تھا جیسی بھی گذرے ہر طرح گذارنے کو تیار تھا مگر اب اپنے الفاظ واپس لینے کو تیار نہیں تھا اور میں فیض آباد آنے کو تیار ہوگیا میری اس خود مختاری میری چھوٹی سی ناتجربہ کار عمر میں مجھ پر زیب نہیں دے رہی تھی۔ چچی صاحبہ جنھوں نے مجھے واقعی تربیت دی تھی بچپن میں ہم والدہ سے زیادہ چچی سے وابستہ رہے اور انھیں کے ساتھ زیادہ وقت گذارا تھا۔

چچی کے مقابلہ والدہ کو چھوڑنا میرے لئے قدرے آسان تھا۔میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ چچی اماں مجھے والدہ سے زیادہ چاپتی تھیں لیکن مجھے آج تک یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایران کی واپسی تک والدہ سے زیادہ میں چچی کو چاہتا تھا کیونکہ والدہ کبھی ڈانٹ بھی دیتی تھیں مگر چچی میری ہر خواہش کو پورا کرتی تھیں۔

جب چچی امی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہم کو چھوڑ کر فیض آباد چلے جاو ٔگے تو اب یہ میرے لئے بڑی مشکل تھی کہ فیض آباد جایا جائے یا چچی امی کے ساتھ رہا جائے۔

سوانح:

غرض بات یوں طے پائی کہ جب بھی چچا فیض آباد آئیں گے چچی امی انکے ساتھ فیض آباد آکر مجھ سے مل سکتی ہیں یہ زیادہ آسان تھا بہ نسبت اس کے کہ میں فیض آباد سے تنہا گھر آوں جائوں۔

اس بیچ مجھے نیند آگئی اور میں سوگیا چچی امی بھی سوہی گئی ہوں گی لیکن جب میں اٹھا تو انھیں پنکھاہانکتے اور روتے ہوے دیکھا میں پھر ان سے لپٹ کر رونے لگا اور اس حال میں سوگیا۔

صبح کو میں جناب کے ہمراہ روانہ ہو رہا تھا کہ ایک ہنگامہ تھا ہر آنکھ پر نم تھی یہ زمانہ اگر میری سمجھداری کا زمانہ ہوتا تو میں اپنے بزرگوں کو ہر گزاتنی تکلیف نہ دیتا۔

مجھے بخوبی یاد ہے کہ ہمارے گائوں(موضع درون) سے قریب اٹوائیس کے ڈرائیور صاحب تھے وہ ٹیکسی چلاتے تھے انھوںنے ہم لوگوں کو فیض آبا پہنچایا تھا۔ٹھیک نماز ظہر کے وقت ہم داخل وثیقہ عربی کالج ہوئے وہاں سب سے پہلے جس سے ملاقات ہوئی وہ جناب و اصف اصغر صاحب جو خطیب بنگال علامہ السید تقی الحیدری صاحب قدس سرہ کے چھوٹے بھائی تھے۔

وہ اس وقت صف دوم کے بزرگ طلباء میں شمار کئے جاتے تھے ہمارے ساتھ گھر سے جوکھانا رکھ دیا گیا تھا وہ مدرسہ میں سارے طلباء کے واسطہ ایک وقت کیلئے کافی تھاہم لوگ کھاناکر دوپہر کو سوگئے۔

اذ ان مغرب سے کچھ پہلے مجھے جگایا گیا لوگوں کے ساتھ مین نے بھی نماز ظہرین ادا کی در حقیقت ابھی تنہا نماز پڑھنا میں نے سیکھا ہی نہیں تھا مگر یہ ضرور سنا تھا کہ جب کہیں جائو تو نماز آدھی ہوجاتی ہے میری دونوں نمازیں بلاقرأت درست قیام قعود کے ساتھ تمام ہوئی۔

اب جو نماز مسافر و مقیم کے احکام سمجھائے گئے تو معلوم ہوا کہ میں نے کیا غلطی کی ہے اگلے روز میرا داخلہ اطفال میں ہوا سخت محنت کے بعد درجہ اوّل میں اسی سال آئےمجھ پر مولانا سید عابد علی صاحب مرحوم سابق ایجنٹ مقبرئہ عالیہ بہو بیگم صاحبہ نے کافی محنت کی اس کے علاوہ میرے سینئیر طالب علم سید سبط حیدر صاحب مرحوم انبائے میر باقی نے بھی املا وغیرہ بڑی مشقت سے لکھو ایا لیکن مولوی اولیٰ تک ہم نے انہیں پالیا تھا اور مرقاۃ وغیرہ کلاس کے بعد اپنے ہم کلاس کے لوگوں کو پڑھاتے بھی تھے مگر میرے استاذ رہے سید سبط حیدر صاحب مرحوم نے چند کلاس پڑھنے کے بعد مجھ سے پڑھنے سے انکار کردیا اور وہیں سے انکا دل ایک طرح سے پڑھائی سے روٹھ گیا اور وہ آگے نہ پڑھ سکے۔ استاذ العلام نے انہیں مدرسہ میں چپراسی کی ملازمت دیدی اپنے کام اورمنصب سے مرحوم پوری طرح مطمئن تھے خدا انھیں غریق رحمت کرے اب ان کی جگہ انکا بچہ اسی جگہ کام کر رہا ہے جسے خطیب بنگال ؒ اپنی زندگی میں ملازمت دے گئے تھے اس مدرسہ سے میرا تعلق کم و بیش نو سال رہا۔

وثیقہ عربی کالج فیض آباد میں ابتدائی تعلیم کا زمانہ میرے لئے ایک طرح سے اور یادگار رہا کہ والدہ اور چچی کو چھوڑ کر رہ لینا جو میرے لئے آسان نہیں تھا مگر استاذی العلام قدس سرہ کی اہلیہ مرحومہ نے مجھے وہ پیار دیا جو ضبط تحریر کیلئے الفاظ نہیں رکھتے چاے سے کھانے مرحومہ مجھے یادرکھتیں، وہیں حجہ الاسلام خطیب بنگال کی اہلیہ صاحبہ کا کرم ناقابل فراموش ہے مدرسہ کا دھوبی جب کپڑے دھوکر دے جاتا تو انگنت بار میرے کپڑے خودغوطہ کرکے پریس کرتیں اورکے مجھے دیدیتیں یہ وہ کرم فرمائیاںہیں کہ برسوں انکی جوتیاں پلکوں سے صاف کروں اور سر پر رکھ کر چلوں جب بھی ان کے محترم اور مخلص جذبات کاشکر نہیں ادا کیا جاسکتا۔

آج بھی مجھے مدرسہ سے اپنے گھر کی نسبت کم محبت نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی رہوں ملک عزیز ہندوستان میں جو سکون ملتا ہے اس کا جو اب نہیں اور ہندوستان میں رہ کر گھر اور فیض آباد میں رہ کر مدرسہ سے جو سکون ملتا ہے اس کا کوئی جوڑ نہیں۔

شہر فیض آباد خصوصی میری زندگی میںسہیم ہے

اس وقت کے جملہ استاتذہ بے حد محترم اور خلیق تھے انکی پٹائی میں بھی بڑی ہمدردیاں مضمر تھیں جو آج یاد آتی ہیں۔

وثیقہ سے خدا حافظی کے پہلے:

یہاںکے اساتذہ میں جناب مولانا سیدعابد صاحب،جناب مولانا سید محمد عباس صاحب، حضرت مولانا قدرت اللہ خاںصاحب، جناب مولاناعنایت اللہ خاںصاحب، جناب مولاناسیدمحمد حسن صاحب،جناب مولانا ابرار صاحب یہ جناب علامہ سیدوصی محمد صاحب پرنسپل کے بھی استاذ تھے حجۃ الاسلام جناب مولانا سید کلب حسن صاحب، ا نگلش کے استاذ جناب سید انصار حسین صاحب تھے۔

اس مدرسہ کو وہ خصوصیت حاصل ہے جو پورے بر صغیر میں کسی مدرسہ کو نہیں وصیت کے مطابق بہو بیگم صاحبہ (واجد علی شاہ کی پردادی ) نے شرط رکھی ہے کہ یہاں سنی اور شیعہ دونوں فقہ پڑھائی جائے گی اس میں وائس پرنسپل سنی عالم اور شیعہ پرنسل ہوگا۔یہاںدونوںہی فقہیں پڑھائی جائیں گی قانونی طور پر گورنمنٹ کے اداروں میں اگر آج دونوں ہی فقہیں پڑھائی جارہی ہوتیں تو باہمی اتحا دو اتفاق کا عالم ہی کچھ اور ہوتا۔ہوسکتا ہے کبھی یہ سمجھ ہمیں آہی جائے حالانکہ اس طرح کا سوال میں مختلف اداروں کے مہتمم اور مختلف سربراہوں سے کرچکا ہوں مگرمثبت میں اس کا جواب ابھی تک نہیں ملا مستقبل قریب میں ایسا ہوتا ہوابھی نہیں دکھ رہا ہے۔ کیونکہ اب جو حالات ہیں وہ کسی پر چھپے ڈھکے نہیں ہیں۔

خطیب بنگال کی دوراندیشی

حال فی الحال وثیقہ عربی کالج کی رسم مسلمہ پروری ختم ہوئی مدرسہ میں کرایہ داروں کے انیس گھروں کا ایک محلہ بستاتھا بچپن سے ایک الجھن کا احساس ہوتا تھا وہ بھی اسی مدرسہ کی خصوصیت تھی یہاں مدرسہ میں کئی کرایہ دار رہتے تھے ان سے طلباکی اکثر و بیشتر نوک جھونک ہواکرتی تھی خطیب بنگال نے ان میں بعض کے واسطہ زمیں فراہم کرائیں جو از حد غریب تھے اور ضرورت مندوں کو کچھ رقم اپنی جیب خاص سے دیکر مسئلہ کو حل کردیا جبکہ بعض اپنے بھی تھے جو مستطیع ہوتے ہی وہ خود ہی نکل گئے اور ماشاء اللہ اب شہرمیں ان کے ایسے شاندار مکانات ہیں جو قابل دید ہیں اور خطیب بنگال اب قبر میں زمین کی چادر اوڑھے سورہے ہیں گوکہ انکے فراق میں ان کے لواحقیقن و متعلقین طلباء و مدرسین اسی سکون کے مطابق مضطرب ہیں۔

مدرسہ ٔ ناظمیہ:

لکھنو پہنچنے پر میرا داخلہ ۱۹۷۷ء؁ میں مولوی الف میں میںہوا اختبار کے بعد استاذی العلام حجۃ الاسلام جناب سید محمد غافر صاحب قبلہ نے مجھے اسی لائق پایا۔

میرے احباب نے مجھے حجۃ الاسلام سید محمد غافر صاحب کے طرز اختیار سے اتناڈرا دیا تھا جسے ضبط تحریر نہیں کرسکتا اندرہی اندر ایک انجانا خوف پیدا ہوااور بوقت اختبار وہ جوان ہوچکا تھا اس خوف کی جوانی نے مجھ پر ضعیفی کے اثرات مرتب کر دئے تھے۔

جناب کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرکے بیٹھے ہی تھے کہ جووہ خوف اب تک میرا تعاقب کررہا تھا وہ میرے سامنے تھا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو شکار کسی کے سامنے اپنے گھٹنے خودہی تو ڑ کر بیٹھا ہوا اب کوئی راہ فرار بھی اس کے سامنے سے نہیں ۔استاذ نے ویسا اختبار تو نہیں لیا جیسااحباب نے مجھے بتلایا تھا ہاں اس سے کچھ سخت ضرور تھا۔ قارئین آج وہ میرے پسندیدہ اساتذہ میںایک ہیں حالات زخموں کو ضرور مندمل کردیتے پرگاہے اپنی یادون کے نقوش بھی چھوڑ جاتے ہیں استاذ العلام کی سخت گیر ایماندارنہ روش میں طلبہ سے محبت کا جو پہلو مضمر تھا آج میں اس رویہ سے بہت مضبوط اور اپنے طلباء میں محبوب بھی ہوں آج فخرسے کہہ سکتا ہوں کہ میرے طلباء میرا بہت ہی زیادہ ادب و لحاظ کرتے ہیں مگر مجھے جس قدر چاہتے ہیں اللہ اس زمانے میں ہر کسی کو اتنے ہمدر و مودب د شاگرد عطا فرماے۔

طلباء کی تعمیر میں قدرے سختی تو ضروری ہے لیکن اس میں اپنائیت کا ہونا بھی لازم ہے ورنہ برابری قائم ہوجائے گی جوطرفین کیلئے نقصاندہ ہوگی۔

ہم استاذ محترم کے شکر گذار ہیں مدرسہ میں ایک سے ایک علامہ اساتذہ تھے حجۃ الا سلام السید رسول احمد صاحب قبلہ قدس سرہ آپ کا نام ہی لیکر قلب و زبان کو ایک عجیب سی لذت کااحساس ہوتا ہے اپنی اولاد جیساپیار وحفظ مراتب کا ہمہ وقت لحاظ رکھتے آپ عربی ادب کے استاذ تھے پڑھاتے وقت استاذ و شاگرد کے درمیان ایک مناسب فاصلہ تو رکھتے لیکن جب وقفہ سوال ہوتا تو بڑی متانت و سنجیدگی سے اس کا جواب دیتے آپ کی ہمدردی ایسی ہوتی کہ ساری دوریاںختم ہوجاتیں باتیں کرتے تو پھول جھڑتے تھے اس مخلصانہ لب و لہجہ کے قربان جائیے۔

حجۃ الاسلام علامہ سید شاکر حسین صاحب اور حجۃ الاسلام علامہ سید محمد ایوب صاحب قدس اللہ سر ھما عجیب مطئن شخصیات تھے اپنے موضوعات پر اس قدرقادر الکلامی رکھتے تھے کہ ہم اس وقت انھیں سمجھ ہی نہ سکے ہم بس اتنا ہی سمجھے جو وہ پڑھاتے تھے انھیں سمجھنے کا سلیقہ تو فی الحقیقت اب پیدا ہوا ہے۔

مرحومین علی الترتیب صرف فلسفہ ، منطق،و نحو جبکہ آخر الذکر اور منطق کے اعلیٰ اساتذہ میں اپنا مقام آپ تھے علم کلام پر جو پکڑ تھی اس کا تو جواب ہی نہیں یہ حضرات مشہور چاہے جس موضوع کے استاذ رہے ہوں لیکن جب ان سے کسی دوسرے موضوع کاسوال کیا جاتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ سبھی موضوع کے استاذ ہیں غرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کی اور جانے کتنی صلاحتیں لیکر یہ حضرات سوگئے جس کا انھوں نے خود ہی کوئی تعارف نہیں کرایا تھا مدرسہ بھی ان حضرات سے کتنا فائدہ اٹھاتا استاذ الاساتیذ حضرات بڑے ہی نابغہ لوگ تھے سمجھ میں نہین آتا کہ وہ کون سا لفظ ہے جو ان بزرگوں کو نذر کروں کہ وہ ان کی صلاحیتوں کا غماز ہو۔

استاذ العلام السید محمد ہاشم صاحب قدس سرہ:

اور اب آخر میں اپنے شفیق ترین استاذ محترم علامہ ہاشم صاحب قدس سرہ کے بارے میں یہ وہ شخصیت تھے فقہ کی بر جستہ علمی شخصیت تھے انکے کرم نے مجھ جیسے بے مایہ طالبعلم کو بھی خود سے قریب کررکھا تھا جب بھی کوئی علمی پیچیدگی کا سامنا ہوتا آپ کے پاس آکر اسے فوری حل کرلیا کرتا اگر ایک بار میں کوئی طالبعلم نہ سمجھ سکے تو اسے تب تک کئی طریقہ سے سمجھاتے جب تک بچہ مطمئن نہ ہو جائے۔

طلباءکی پریشانی پر فوری غور فرماتے اپنے پریشاں کن حالات میں بھی مسکراتے رہتے ابھی تک استاذ کا وہ پر تبسم چہرہ نظروں کے سامنے اکثر آجاتا ہے۔

استاذالعلام سید شہنشاہ حسین صاحب قدس سرہ:

بڑی ہی ناسپاسی ہو گی اگر آپ کا تذکرہ نہ ہو آپ کو فقہ میں میراث کے موضوع پر بڑی گرفت تھی یہ مسئلہ اہالیان فقہ سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ہم جملہ طلاب ناظمیہ عموماً آپ ہی کی مدد کے طالب ہوئے بعض مسئلہ جو ایران میں میراث کا صاف نہیں ہوسکے تھے اسے آپ سے اس وقت حل کیا جب آپ ایران ایک کانفرنس میں تشریف لے گئے تھے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں اس کے اساتذہ خدانخواستہ نہیں تھے ہاں وہ ہمیں اتنا وقت نہیں دے سکتے تھے جتنا وقت ہم آپ سے لے سکتے تھے وہ لوگ جو اس جہان فانی سے اٹھ گئے ان کی بھرپائی مستقبل قریب میں ہوتی ہوئی نظر نہیں رہی ہے۔

یااللہ ان حضرات کی علم دوستی کا واسطہ کہ ان کی جگہیں کما حقہ پر فرما دے آمین یارب العالمین بہ جاہ سید المرسلین و آلہ ٖ الطاہرین۔

سلطان المدارس

لکھنؤ کا یہ شاہی مدرسہ اپنی دیرینہ روایات میں بے نظیر ہے یہاں کی پہچان یہاں کے طلباء ہیں مدرسہ کی طرف سے طلباء کو پوری آزادی ہر زمانہ مین رہی اور علم حاصل کرنا طلباء کے شوق پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اپنی طبیعت کے مطابق طلاب کرام تحصیل علم فرماتے ہیں۔

مگر اس چھوٹ سے بعض طلباء یہ طے کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ عربی مدارس میں داخلہ کا مقصد کیا تھا عربی مدارس کا اپنا ایک دستور اور اس کی شناخت ہوتی ہے جو یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ پہچان جو ان کی روحانی حیات ہے اس کو ترک کرکے علم دین تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اپنا تعارف الگ سے کروانا پڑتا ہے جبکہ ہم طلاب دین کی وضع ہی ہمارا تعارف ہونا چاہئے۔

یہاں کی اکثر چیزیں اور افراد آج بھی یاد آتے ہیں مدرسہ کی عمارت اس قدر دیدہ زیب ہے کہ اپنی مثال آپ ہے یہ عمارت نہایت ہی وسیع و عریض ہے یہاں طلباء کے رہنے کیلئے اچھا انتطام ہے لائبریری کا انتطام بہتر تو کہا جاسکتا ہے لیکن طلاب کرام اس میں پڑھنے نہیں آتے لائبریری علمی وسعت کیلئے ضروری ہے آپ طالب علم بھی ہوں اور لائبریری سے آپ کا تعلق بھی نہ ہو یہ تعجب سے بھی چند گام تعجب خیزہے۔

لائبریری کو آباد کرنے کاکام درجۂ اطفال کے طلباء کا نہیں بلکہ تحتانیہ اور اورفوقانیہ کے طلاب کا مرھون منت ہے اساتذہ کرام تو چلتا پھر تا علمی ادارہ ہیں ان سے ہر موقع پر کچھ نہ کچھ معلوم کرتے رہئے ہمارے زمانہ کے قابل ذکر نا بغہ اساتذہ حجہ الاسلام علامہ جناب السید محمد جعفر صاحب رضوی قدس سرہ آپ کا تعلق جامعہ سلطانیہ سے تھا آپ کا شمار فقہ کے اچھے اساتذہ میں ہوا کرتا تھا۔ زیور اخلاق سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مزین کررکھا تھا اخلاقی قدروں کی محافظت میں بالادستی حاصل تھی اپنے طلاب پر مہربان اور شفیق بھی تھے معاملہ فہم اور نہایت ہی سنجیدہ تھے رحم دل اتنے کہ بچوں کو ان کی غلطی کی سزادینے میں اتنی تاخیر کرتے کہ طالب علم کو اپنے کئے پر پچھتاوا ہوتا ۔

حضرت علامہ حجۃ الاسلام علامہ سید بیدار حسین صاحب مد ظلہ العالی:۔ آپ کے تبحر علمی کا کیا کہنا چند صاحبان اسعتداد میں آپ کا شمار سر فہرست ہوتا ہے اخلاق میں آپ کا کوئی ثانی نہیں مدارس میں پڑ ھائے جانے والے جملہ موضوعات پر آپ کی مکمل گرفت ہے جس موضوع پر چاہئے پڑھئے آپ کو مسکت جواب ملے گا۔

استاد العلام نے اپنے تئیں طلباء کو کافی نڈر کرلیا ہے شاید جناب کا یہ ماننا ہوکہ جب اپنے جوتے سلمہ کے پیرمیںآنے لگیں تو انھیں دوست بنالینا چاہئے ہر عہد کے طلبأ جناب سے بہت ہی خوش رہے ہیں۔مزاج میں اس قدر سادگی پائی جاتی ہے کہ ضابطہ ٔ تحریر میں لانے سے قاصر ہوں اکثر سوچتا ہوں کہ اس قدر خوبیاں ایک انسان میں کیونکرجمع ہوجاتی ہیں؟ کس قدر بے قابو نفس امّا رہ پر قدرت حاصل ہے یہ سمجھہ سے باہر ہے۔ مختصر یہ کہا جاسکتا ہے کہ معصومین کے تابع یوں بھی ہوتے ہیں جس پر صاحبان کردارر شک کریں۔

حجۃالاسلام استاذ العلام جناب سید غلام مرتضیٰ ساحب قدس سرہ آپ کا عربی ادب میں خصوصی مقام تھا آپ نہایت ہی خوش طبع اساتذہ میں شمارکئے جاتے تھے۔ طلباء آپ کے درس کے منتظر رہتے درس تدریس میں ایک مدت گذاری تھی کتاب کے مفاہیم کبھی استاذی العلام پر حاوی ہوتے نہین دیکھا پر استاذی العلام کتاب کے مشکل مطالب پر ہمیشہ غالب رہے ایسے مقامات کو بہت ہی آسان کرکے بیان کرتے اور سمجھاتے اپنے طلبأ کے حق میں بہت ہی شفیق تھے۔

استاذی العلام سید غلام مرتضیٰ صاحب قدس سرہ:۔ پان تمباکو کے بڑے شوقین تھے عموماً ہاتھ پر ایک سیاہ عبارکھے رہتے جو لکھنوی کار چوبی سے سجی ہوئی تھی۔ مرحوم حقہ کے بھی شوقین تھے کافی سخت تمباکو استعمال فرماتے اس سلسلہ میں اکثر کہا کرتے تھے کہ بھئی یہ میرا شوق ہے آخر میں دواستاذ حجۃ الاسلام و المسلمین عالی جناب سید اخلاق مہدی صاحب قدس سرہ اور حجۃ الاسلام عالیجناب قمر صاحب مرحومین نہایت ہی ٹھوس اورپڑھے لکھے لوگ تھے۔

اول الذکر جناب علامہ اخلاق صاحب قدس سرہ منطق و فلسفہ کے لاجواب استاد تھے علمأ و فضلأ میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے احباب ان کی خدمت بابرکت میں گھنٹوں بیٹھے کسب فیض فرماتے رہتے گویا علم کے دریاے ذخار سے لوگ اپنی اپنی ضرورت کے مطابق فائدہ اٹھاتے۔

مرحوم اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن اپنے طلباء میں ضرور زندہ ہیں۔ جبکہ آخر الذکر علامہ جناب قمر صاحب قدس سرہ بے حد سنجیدہ اور شریف اساتذہ میں شمار ہوتے ڈیوٹی کے کافی پابند تھے فرض شناسی کوئی ان سے سیکھے شکوہ شکایت یادنیاداری کی باتوں میں کوئی بے اعتنائی نہیں برتتے تھے طلباء اگر کبھی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے تو علامہ مرحوم بڑے ہی حسن و خوبی سے ٹال دیتے اصول کے بہترین اساتذہ میں شمار کئے جاتے تھے ایسے نابغہ ٔ روزگار اب کہاں؟اللہ رب ذوالجلال انھین جوار رحمت میں جگہ دے امین یا اِلہٰ العالمین۔

مکتبہ الزھرأ:

سلطان المدارس کی زندگی میں یہ موقع میری زندگی میں بڑے نکھار پیدا کرگیا نیز پارسائوں کے رخ پر پڑے پردے بھی ہٹا گیا میں اس میں دو حیثیت سے کام کرتا تھا یہ وقت مدرسہ کے اوقات سے ہٹ کر ہوتا تھا اول تو میں کلرک ساتھ ہی خازن کی بھی ذمہ داریاں ادا کرتا تھا۔

اس ادارہ کی روح رواں مہدی خواجہ پیری صاحب ایرانی ہواکرتے تھے آپ ایران کلچر ہائوس یا ایمبیسی میں کسی عہدے پرفائیز ہیںاور ملک عزیز میں رہتے تھے۔

ایرانی انقلاب سے متعلق آنیوالی(فارسی انگلش اردو، ہندی) میگزینیں قارئین کے پتہ پر روانہ کرتے تھے بعد میں یہ سدھار بھی اس میگزینیں اخبارات میں لایا گیا کہ ملک عزیر ہندوستان کہ وہ جر ائد اور رسائل اردو ہندی کے شامل کئے گئے جو جمہوری اسلامی ایران کے بہی خواہ اور ان کے جذبات کے غماز تھے اس کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی انقلاب کی صحیح تصویر عوام الناس کے سامنے پیش جائے۔

اس کی ضرورت کسی جرم کی وجہ سے نہیں محسوس ہوئی کہ اس کا دفاع ہو بلکہ مغربی میڈیا کے شرپسندانہ رویہ اور اس کی زہریلی روش کا توڑ تھی۔

یہ سارہ کام فی سبیل اللہ ہوتا تھا جمہوری اسلامی سے اس وقت جذبہ ٔ ہمدردی آج سے کہیں زیادہ اور بہتر تھا۔

خواجہ پیری صاحب کی تیزی مزاج سے میرے انکے درمیان رمق شکر رنجی ضرور پیدا ہوئی مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہ نکالا جائے کہ مجھے افکار جمہوری اسلامی سے کوئی کبھی شکایت ہوئی اللہ رب العزت سے دعاگو ہوں کہ بار الہ ٰ زندگی میں ایسا لمحہ بھی کبھی نہ آئے جب حضرت حجت اور ان کے ناصروں اور ان کی مملکت سے مجھے کوئی شکایت ہو۔ آمین۔

ادارہ نے بڑی مضبوطی سے اپنی ذمہ داری پوری کی مومنین و مسلمین نے اس سے خوب خوب فائدہ اٹھایا یہی ادارہ کے متعلقین کا نصب العین تھا اللہ اس کا رسول اور ان کی آل پاک علیھم السلام ہماری اس خدمت کو قبول فرمائیں اور اس کی بہترین جزاء دنیا و آخرت میں عطا فرمائے۔آمین۔ آمین۔ آمین

مدرسۃ الواعظین:

میں نے مدرسۃ الواعظین کا Testالہ آباد عربک پرشین بورڈ کی بنیاد پردیا تھا اور اس میں قبول بھی کرلیا گیا ہمارے ساتھیوں میں عالی جناب نثار احمد خان صاحب، عالیجناب فار قلیطا الحسینی صاحب، عالیجناب شجاعت حسین صاحب ، عالیجناب ثقلین صاحب، نیز عالیجناب عمار صاحب میرے ساتھیو ں میں سبھی محنتی اورذہین تھے سو موجودہ عہد میں جملہ افراد خوشحال اور مطمئن ہیں۔

ہمیں تعمیر کرنے میں حجۃ الاسلام علامہ سید وصی محمد صاحب قدس سرہ و علامہ ادیب الھندی صاحب قدس سرہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے ان کا تبحر علمی جگ ظاہر ہے میں نے اب تک ادیب الھندی صاحب کے برابر اور زیادہ تو بہت دور کی بات ہے ان کے آس پاس ہمہ جہات و جمیع جہات کسی کو نہیں پایا۔

اس قدر خلیق تھے کہ آپ اپنے طلباء میں جہاں ایک اچھے دوست تھے وہیں انکے رعب کا یہ عالم تھا دوران درس Pin Drop Sileantہواکرتا تھا ان کا مفاہیم کتاب پر مکمل طورسے حاوی ہونا انہین اس عزت کا حقدار بناتا ہے ۔

انھوں نے کبھی کسی طالب علم میں کوئی تفریق نہیں کی اساتذہ کو عزت دینے کی ترغیب ان کی تربیت کا اولین فرض تھا کسی بھی بڑے کے ساتھ عزت سے پیش آنا انکی تعلیمات کا اہم جز تھا بات بلا ثبوت نہ کی جائے مخالفین سے بھی وہ رویہ اپنایا جائے کہ اپنا موقف کیوں نہ کمزور ہوجائے مگر جھوٹ اور غلطیوں کا سہارا نہ لیا جائے۔

ان کا عجیب حال تھا ہر کسی پر اعتبار فرمایا کرتے تھے مگر اس کو اس قدر اہمیت دیتے کہ کوئی انسان اس اعتبار کے خلاف جانے میں شرمندہ ہو جاتا تھا مولانا کی عملی تعلیمات میں جلال خداوندی کی پاسداری اور اس کے احکام کا سختی سے لحاظ نیز اہلبیت علیھم السلام کی سیرت پر عملی ثبوت ملتا تھا۔ اہلبیت سے وفادار ی ان کا طرز حیات تھا۔

ایک مرتبہ میں مدرسہ میں امرود کے درخت پر چڑ ھ کر امرود توڑ رہا تھا اور نیچے میرے احباب انھیں اٹھاکر تخت پر رکھ رہے تھے دریں اثناء ادیب صاحب آگئے پر کوئی ہل نہ سکا سب دم بخود ہوگئے میں درخت سے اتر اآپ نے فرمایا یہ امرودکیوں توڑ ے گئے کیا اجازت لی گئی مال وقف ہے اسے خریدا گیا ہے آپ حضرات پر اس کا چکھنا بھی حرام ہے دقتی طور پر احساس ندامت تو ضرور ہوالیکن آج تک اس عملی تعلیم کا یہ اثر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐ سے کوئی شرمندگی نہیں اور کسی بھی رقیق حرکت سے میرانفس کم از کم محفوظ ہے کیونکہ بیداری نفس کے بعد آج تک طبیعت پر کوئی غلط اثر یاضیافت اثر مرتب نہیں ہوسکا۔میں اپنے طلبأ کو اکثر و بیشتر یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات تزکیۂ نفس کیلئے بتاتا رہتا ہوں کیونکہ انسان کتابیں پڑھ کر تزکیہ نفس نہیں پیدا کر سکتا جب تک کہ ان سچائیوں کو زندگی میں نہ اتارا جائے۔

اور اب:

استاذی العلام سید وصی محمد صاحب قدس سرہ مجھے یہ معلوم تھا کہ اپنی تعمیر کیلئے واعظین میں داخلہ لینا ضروری ہے پر میں مولانا مرحوم سے یہ لو لگاے ہوئے تھا کہ میں تو ان کا سب قریبی ہوں جناب مجھ پر التفات کی بھر مارکردینگے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا انھوں نے جب میرا فارم دیکھا تو مجھے بلواکر خصوصی طور پر کہا کہ آپ Testکیلئے مکمل طور پر تیاری کرلیجئے گا یہاں سفارش نہیں چلتی یہ میری خوددار طبیعت پر بہت گراں گذرا کہ میرے اور عام طلباء میں کوئی فرق نہ کیا جاے۔

Testمیں آنے کے بعد میں نے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی اور جناب مرحوم کے عدل میں وثیقہ عربی کالج سے واعظین تک سرمو فرق نہیں دیکھا ، ہمدردی میں ان کا کوئی ثانی ایران تک اساتذہ میں نہیں ملا۔

درجات کے علاوہ ان دونوں ہی سے کسی بھی وقت علمی دشواری حل کی جاسکتی تھی واعظین میں جناب کی موجودگی سے دل کو کافی تقویت رہی جس کے سبب اطمینان سےحصول تعلیم میں مصروف رہا۔

اسی زمانہ میں مکرمی منظور احمد صاحب نعمانی کی ’’کتاب ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعت‘‘ منظر عام پر آئی جس کا میں نے واعظین میں تعلیم کے دوران ہی کرارا جوا ب دیا چونکہ استاذی العلام ادیب الھندی صاحب نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ جواب لکھئے میں اسے شائع کروادوں گا۔لیکن وہ آج تک شنائع نہ ہوسکی۔ دفع شبہ کیلئے ضروری ہے اسے کوئی مناظر عالم ضرور دیکھ لے استاذ العلام السید سلمان شاہد زعیم فاطمی صاحب ایران میں تعلیم کے دوران اس پر نظر ثانی فرما چکے تھے۔کتاب کے شائع ہونے میں ادیب صاحب کافی خواہش مند تھے کہ شائع ہو مگر ان وجوہ کا تذکرہ عمداً نہیں کرسکتا اس میں کچھ پر دہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیںاس کتاب و جواب اسلامی انقلاب امام خمینی اور شیعیت ،یعنی صہیونیزم کے اسلام پر حملہ نے مجھے کیا کیا دن نہیں دیکھا یا اس کا تذکرہ تو بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہیں اس کتاب نے مجھے انقلابی سے ضد انقلاب بنادیا۔جودے اس کا بھی بھلا جونہ دے اس کا بھی بھلا، میرے بعض تنگ نظر ہندوستانیوں نے بیجا خوشنودی کیلئے میری دو شکا یتیں ایران شعبۂ جاسوسی میں کیا کہ آقائی اصغر نے ضد بر انقلاب و امام خمینی ؒ کتاب لکھی ہے میں وہاں بلایا گیااس شخص نے مکمل ایرانی ثقافت کا ثبوت دیا اور نہایت ہی نرم لب و لہجے میں گفتگو کا آغاز کیا اور مجھے بے گناہ ثابت ہونے کا پورا موقع بھی فراہم کیا حسن اتفاق دیکھئے کہ میں کتاب محض اس لئے ساتھ لے گیا تھا کہ والدہ مرحومہ نے فرمایا ہم سے اب تمہاری کتابیں نہیں سنبھالی جائیں گی تم اس کا کچھ انتظام کرکے جائو چنانچہ میں اپنے ساتھ اس وقت کی اپنی دو تازہ غیر مطبوعہ کتابیں ایران لے گیا اول یہی کتاب مذکورہ اور دوسری بنی قریظہ کی خون آشام تاریخ جو اس وقت کی مالی کمی کے سبب شائع نہ ہوسکی اور اب مصلحت کے تقاضے یہ کہتے ہیں کہ اسے شائع نہ کیا جائے۔ جبکہ نعمانی صاحب کی کتاب کے جواب میں سترہ جواب شائع ہوئے انہیں پڑھنے کے بعد اپنا جواب ابھی بھی سب پر بھاری ہے۔

وعدہ کرتا ہوں کہ یہ کتابیں شائع ضرور ہوں گی انشاء اللہ الغرض جب میں اپنی تحریر شدہ کتاب لایا تو میں نے آفیسر کے سامنے ایک گذارش رکھی کہ اس کتاب کوکسی غیر ہندی سے پڑھوا یا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

انھوں نے ایسے ہی کیا مجھے اپنے اس پاکستانی محسن کا قیام بھی نہیں معلوم جس نے اس کتاب کے جگہ جگہ سے بعض بعض مقامات پڑ ھے اور ترجمہ کرکے سمجھایا وہ میری کتاب پر عائد کردہ الزام سے مطمئن ہوگئے مگر وہ خود اپنے سے میرے ساتھ انجام دئے گئے رویہ سے کافی شرمندہ ہوئے۔

میں نے اجازت چاہی مگر آفیسر نے فرمایا ابھی آپ پر ایک اخلاقی الزام ہے اس کا بھی جواب ہم چاہیں گے میں نے کہا ضرور اگر مجھ پر ایران کے خلاف تا حیات کوئی الزام ثابت ہوجائے تو خود کو ایران کا گنہگار تصور کروں گا میری زندگی میں اللہ ایسا کوئی وقت نہ لائے کہ میں ایران کا مخالف قرار پائوں تف ہے زندگی کےاس لمحے سے جب ایسا کوئی وقت میری زندگی میں آئے۔

آپ پر دوسراالزام یہ ہے کہ آپ نے آقائے امام (خمینیؒ) کی بیماری میں نذرکے روزوں کی منت کی تھی کہ اگر آقائے امام اسی بیماری (زخم معدہ )میں انتقال فرمائیں گے تو میں تین روز ے نذر کے رکھوں گا۔ فی الحقیقت یہ وہ الزام تھا جس نے مجھے اندر سے توڑ دیا تھا اور میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔

مگر استاذی العلام ادیب الھندی کی ایک ہدایت کام آئی برے وقت میں اطمینان ضروری ہے۔ اس جملہ نے میرے افکار پر اگندہ کے درپردستگیری کی اور میں نے سب کچھ سچ سچ بتلادینا ہی بہتر سمجھا میری عادت تملق پسند انہ نہیںاور پھر میں نے اپنے نذر کے روزو ں کی حقیقت کھولدی۔

جسکی سچائی کچھ یوں ہے:

جب مرجع زعیم اعظم حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید روح اللہ امام خمینی قدس سرہ بیمار تھے یہ بیماری ان کی زندگی کی آخری بیماری تھی آیۃ اللہ آقائی سید علی خامنہ مد ظلہ العالی کو T.V.پر دیکھا آپ کا انداز قدم زنی اورحلم وبردباری و متانت و سنجیدگی اس قدر دلکش کہ صدائے دل آئی اے قادر مطلق یارب العٰلمین اگر امام خمینیؒ کی جگہ مقام رہبری کی ذات ہمیں ملی تو میں نذر کے تین روزے رکھوں گا۔ مگر مجھ پر لگے ہوئے اس الزام کا کوئی گواہ اگر امام خمینیؒ انتقال کر گئے تو میں نذر کے تین روزے رکھوں گا اس کے نفی و اثبات پر نہیں تھا پر الزام تو مجھ پر لگا تھا صفائی مجھے دینا ہے جو میرے پاس نہیں تھا کیوں کہ وہاں کب کون بدل جائے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا تھا چنانچہ میں نے آفیسر سے کہا قرآن کے علاوہ میرے پاس میری صداقت کیلئے کوئی چیز نہیں اور بے بس کا سہارا بھی قرآن ہی ہے۔نیز آپ اس طرح کی بات سوچ بھی کیسے سکتے ہیں اس طرح کی گھٹیا حرکت عراق کے صدر جیسے ذلیل دشمن کے لئے امام نے نہیں کی کہ اظہار خوشی کرتا اور میں جس نے دفاع میں اتنی کاوش کی وہ اس طرح کی حرکت کرے؟!!!

بہر صورت وہ مجھ سے تو مطمئن ہوگئے لیکن میں آج تک اپنے کو مجرم سمجھتا ہوں کہ جو بظاہر انقلابی ہیں یا اللہ ان بہ باطن مخالفین انقلاب ایران کی نظروں میں خود کو میں انقلاب ایران کا ہم نوا کیسے ثابت کروں ؟!

جب سے اس طرح کی فکر دماغ سے نکلی تب سے بہت خوش ہوں کون کسے منائے اور کیوں ناراض کرے تم اپنی راہ میں اپنی راہ ایرانی حضرات جب آتے ہیں انھیں مکمل میری طرف سے مکمل ہمدردی حاصل ہوتی ہے اور یوں ہی جاری رہے گی۔الٰہی آمین

مجھے ان کے رویّے سے کوئی شکوہ نہیں ہاں اپنوں کی روش سے ضرور ملال تھا اور ہے اور پھر علیگڑھ کے مسائل خود اتنے ہیں جو ایک پشت کو الجھائے رکھتے ہیں۔

اور اب تذکرہ اپنے عزیز ترین شہر علی گڑھ کا:

آخر میں چلتے چلتے خداحافظی سے پہلے علی گڑھ کی کچھ باتیں لکھ دی جائیں ۔ یہاں آتے ہی میں نے M.Philکیا اور اس کے بعد بحیثیت استادP.hdکیا اور دونوں ہی نہج البلاغہ کے موضوع پر اس دوران تا حال بڑے نشیب وفراز کا سامنا کرنا پڑاکہ اس ابتلاء سے ریٹائرمنٹ کے بعدہی چھٹکارا ہوگا۔

دریں اثنا چیئر مین سے زیادہ وائس چانسلر بدلے لیکن مجھے بحیثیت رجسٹرار سید محمد افضل صاحب اور سید علی حسن شاہ صاحب جعفری بڑے ہی ہمدرد ملے ان میں میرے نزدیک جو خوبی تھی وہ یہ لگی کہ یہ لوگ جب اپنے ماتحت سے بات کرتے تھے تو مولا اور غلام کا فرق ختم کردیتے تھے جبکہ چیئر مین حضرات میں ڈاکٹر سید ارتضیٰ حسین صاحب مدظلہ العالی کے برابر کوئی صدر شعبہ مجھے نہیں ملا۔وہ اکیلے ایسے تھے جن میں حاکمانہ ایمانداری اور اس کی خوبو تھی۔

اس کا مطلب یہ ہر گز نہ نکالا جائے کہ اور لوگ میرے ہمدرد نہیں تھے میرے کام سے ہر چیئر مین خوش رہا اور میں نے سبھی کو تعاون دیا جبکہ مجھ سے ایک خوف سب کو لاحق رہا کہ اگر ان کا (ملیر)کام بر وقت کردیا جاتا ہے تو کہیں وہ نہ ہوجائے جو حسن اتفاق سے ہم ہوگئے ہیں۔

زندگی کے سب سے ہوشمند دور میں علی گڑھ آیا اور ہوں بھی مگر یہاں آنے کے بعدبہت ہی اطمینان سے دو جلدیںتحریر کر رہا ہوں علی گڑھ کے شب و روز آپ بیتی کے عنوان سے تحریر کررہاہوں۔

اس شہر نے مجھے بہت کچھ دیا یہاں تک کہ مجھے آتنکوادی بھی بناکر پیش کیا مگر موجودہ نائب صدر جمہوریہ عزتمآب عالیجناب حامد انصاری صاحب مد ظلہ العالی اس وقت یہاں کے وائس چانسلر تھے جو اپنی گوناگوں خوبیوں اور شرفاء کی دعائوں اور اپنی خوبیوں کے سبب آج اس مقام پہ ہیں میں انہیںاس وقت سے جانتا ہوں جب یہ ایران میں ملک عزیزہند کے سفیر تھے نہایت ہی نیک طبیعت انسان ہیں اور انہیں کے ہمراہ آئے ہوئے۔رجسٹرار سید محمد افضل صاحب D.I.Gانھون نے مجھے کافی مدد پہنچائی۔اپنے ان جملہ دوستوں کا شکر گذار ہوں جنھیں نے مجھے تعاون نہ بھی پہنچایا ہو ان کا صد شکر صرف اس بات پر کہ انھوں نے اذیت نہیں دی۔

لیکن اس کے علاوہ اگر کسی سے مجھے اہانت آمیز تکلیف پہنچی ہے اور اس نے مجھ سے معافی نہیں مانگی ہے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑ ا تو اس کا فیصلہ میدان محشر میں پیش رسولؐ ہوگا جب میں اپنے حق کو لیکر شاکی ہوں گا میری زندگی میں کسی کو معاف کرنا شامل نہیں جب تک وہ اعتراف جرم نہ کرلے میں اولاد زہراؐ ہونے کے سبب ابھی بھی قدروں کے انحطات کے باوجود ایک غیر تمند انسان ہوں میرے نفس کا فیصلہ ہے کہ معاف کرتے رہنے سے اپنے خلاف مجرمین کو جسور کرنا ہے یعنی خود پر مظالم میں خودہی شریک ہونا ہے۔ جو عقلی و شرعی اعتبار سے قطعی نادرست ہے۔

علی گڑھ کی آپ بیتی میری زندگی کی شاید یہ سب سے اہم اور قیمتی کتاب ہو یہ ہر حال میں انشاءاللہ شائع ہوگی۔ اس میں چھوٹے بڑے کردار سب کے سب شامل ہیں بقول شاعر بس یوں سمجھئے:۔

اسلحے سب لے چلے اعداپئے قتل حسینؑ

ہاتھ جس کے کچھ نہ آیا اس نے پتھر لے لیا

دسیسہ کاروں کی سفید پوشیاں روسیاہیوں پر ہمیشہ غالب رہیں بنابریں اپنے فریب کاشکار ابھی بہت دنوں تک لوگوں کو بناتے رہیں گے۔ رب ذوالجلال ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔

ایسے الزامات آپکی بے باک طبیعت کے سبب آپ پر ہمیشہ لگتے رہیں گے اس کا آسان سا علاج خودسپردگی ہے جو آج وقت کی طلب ہے ۔اللہ تعالی حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی صاحب قبلہ واعظ کو دائماً خیر سے نوازتا رہے اس کی بارگاہ سے سب کچھ ممکن ہے۔

والسلام من اتبع الھدیٰ

طالب دعا

ڈاکٹر محمد اصغر صدرالافاضل ، واعظ، قمی، علیگ

Mob: 09411604165

)ماخوذ از کتاب تاریخ وثیقہ عربی کالج فیض آباد،مولف مولانا ابن حسن املوی،صفحہ۵۵۵ تا ۵۷۶)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha